From the Pen of Shaykh Binnory (rahimahullah)

The divine blessings of Ramadan
Ramadan is approaching. It will bring down the nur and special attention of Allah Ta’ala. It is a time of forgiveness for all the sins of the Ummah. The generosity of the Absolutely Generous (Allah) will encompass all. Iman and good deeds will flourish. The curtailing of eating, drinking and relations will create the ability to abstain from sins. The doors of Jannah will be opened. Locks will be placed on the doors of Jahannam. Every night the announcement will be made of numerous sinners being freed from the fire of Jahannum.

Wisdom of Allah’s commands
The commands and practices that Allah Ta’ala sent to the world are for the reformation of the heart, through which the soul becomes illuminated, and humans become distinguished from animals.
This causes those who are not practicing begin to practice and individuals that have neglected Allah Ta’ala become Allah-conscious.
Humans are distinguished from the level of animals and attain angelic qualities. The poor will be taken care of. The destitute and orphans will be shown mercy. In short, humans will become adorned with the highest level of character and good qualities.

Duties of Ramadan
For these reasons, Allah Ta’ala made the fasting of Ramadan compulsory and standing in Salah at night, a sunnah. So that a believing slave can read or listen to the Quran in these nights [and have his soul purified]. At times, he is making sajdah in the court of Allah Ta’ala, sometimes performing ruk’u with dignity and respect, sometimes standing, warming the heart with the touching melody of the Quran. In Ramadan, one becomes the embodiment of

یذكرون الله قیاما وقعودا وعلى جنوبهم
“They remember Allah standing, sitting and reclining”
(Surah ‘Aliy ‘Imran, Ayah: 191)

In addition to reciting/listening to the Quran at night, one is guided to practice on the Quran in the day.

What to achieve and how to achieve it
[During this blessed month], Lower your gazes and keep your tongues silent except for good words. Abstain from fighting and quarreling. Don’t fulfil any demand of evil temptation or desires. Give sadaqah. Hurry in all works of good and do not refuse to fulfil your obligations. Stay away from all evils. In short, reform your character, appearance, action and conduct, and become an angel entirely. Such reformation of the inner and outer-self should be made that from head to toe, it becomes apparent that this is an individual of an Allah-conscious nation.
(Extracted from Basayr wa ibar, vol. 2, pg. 407-408)

 

03/06/2019

__________

بصائر وعبر (۲/ ۴۰۷۴۰۸): ماہِ رمضان اور اُس کی برکات و فضائل
ماہِ رمضان کی آمد آمد ہے، انوار و تجلیاتِ ربانیہ سایہ فگن ہوں گی، عاصی پُر معاصی ابن آدم کے لیے سامانِ مغفرت تیار ہوگا، جوادِ مطلق کے جودو کرم کا فیضان عام ہوگا، ایمان وعمل کی بہار آئے گی، توفیق وسعادت شکست خوردگانِ معصیت کا دامن تھا مے گی، ر ندانِ بادہ نوش بھی ایک بار توبہ وانابت کی سلسبیل میں غوط لگاکر قدوسیوں سے قدم ملانے کی ہمت کریں گے، ابوابِ جنت مفتوح ہوں گے، ابوابِ جہنم پر قفل چڑ ھاد یئے جائیں گے۔ ’’اے خیر کے طالب! آگے بڑھ، اور اے شر کے قاصد! رُک جا‘‘ کی غیبی صدائیں بلند ہوں گی، ہررات بے شمار گنہگا روں کی آتشِ دوزخ سے آزادی کے فیصلے سنائے جائیں گے۔
نفسِ اَمَّارہ کا تزکیہ
نفسِ اَمَّارہ کے تزکیہ واصلاح کے لیے حق تعالیٰ نے روزہ فرض فرمایا، تاکہ مومن تقویٰ کے بلند مر اتب حاصل کرکے مرتبۂ ولایت پر فائز ہوجائے۔ راتوں کو قرآن کریم سننے سنانے کی تر غیب دی اور اپنا کلام پاک بندوں کی زبان پر جاری کرنے کے مواقع بہم فرمائے۔ روزہ سے نفس کے تزکیہ کا سامان اور روح کی تربیت کے لیے کلامِ پاک سے بہرہ اندوز ہونے کا انتظام فرمایا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ماہِ مبارک میں زمین کا رابطہ ملا اعلیٰ سے قائم کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو -جب سے لیل ونہار کا نظام قائم فرمایا ہے- عجیب وغریب بر کات وتجلیات کا موسم بنایا ہے اور اس خاک کے پتلے کی اصلاحِ روح وتہذیبِ نفس کے لیے جب کبھی کوئی آسمانی تحفہ اُتارا ہے، اس کے لیے اسی ماہ کا انتخاب فرمایا گیا ہے۔ صحفِ ابراہیم ؑسے قرآن کریم تک تمام روحانی تحفے اور عجیب عجیب احکامِ ربانی اور قوانینِ الٰہی پر مشتمل نظام نامے سب اسی ماہِ مبارک کی بر کات ہیں۔ احادیث میں آتا ہے کہ حضر ت ابراہیم  علیہ السلام  کے صحیفے ماہِ رمضان کی پہلی تاریخ کو نازل ہوئے، موسیٰ  علیہ السلام  کی تورات چھ تاریخ کو ،عیسیٰ  علیہ السلام  کی انجیل تیرہ تاریخ کو، داؤد  علیہ السلام  کی زبور۱۸ کو، اور قرآن کریم۲۴ کو نازل ہوا۔ (مسنداحمد) الغرض حق تعالیٰ نے ازل ہی سے کائنات کو اپنی رحمت سے سر فراز کر نے کے لیے اس ماہِ مبارک کو مشرف فرمایا ہے۔
بہرحال رمضان مبارک صحفِ سماویہ اور کتبِ الٰہیہ خصوصاً قرآن کریم کی ایک دینی یادگار ہے، جووحیِ آسمانی نے خود قائم کی ہے، لیکن اس یادگار اور جشنِ وحی کے لیے صرف یہ صورتیں نہیں رکھی گئیں کہ جگہ جگہ چراغاں کیا جائے، در ودیوار عجیب و غریب جاذبِ نظر و دلکش مناظر سے آراستہ کیے جائیں، رنگار نگ قمقموں سے سر زمین جگمگا اُٹھے، شا میا نے لگا ئے جائیں، تفریحات کا دور دورہ ہو، نہ عبادت کی فکر ہو نہ نماز کا خیال، نہ خدا کا نام ہو نہ کوئی دینی کام، بے جا اسراف وتبذیر کر کے قوم اور ملک کی تو انائی کو ختم کیا جائے۔ گویا ایک خدا فر اموش قوم کی زند گی ہو جس کو نہ ابتداء کی فکر ہو نہ انتہاء کا تصور، نہ مبدأ کا خیال ہو نہ معاد کا عقیدہ، یوں ہی لہو ولعب کی دنیا ہو اور عیش پر ستی کا سامان۔
آج کل جو یادگاریں قائم کی جاتی ہیں اس کا حاصل تو یہی ہوتا ہے، لیکن جو چیز اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اصلاحِ نفوس کے لیے بھیجی ہو، جس سے روحوں کو جلا ملے، جس سے انسان حیوانات اور درندوں کی صف سے نکل کر صحیح معنوں میں بااخلاق انسان بنے، اس کے لیے یادگار بھی ایسی ہو نی چاہیے جس سے اس مقصد کی تکمیل ہو، تاکہ بے عمل افراد‘ باعمل، اور خدافر اموش قوم‘ باخدا بن جائے۔ انسان در ندوں اور جانوروں کی صفوں سے نکل کر فرشتہ خصلت بن جائے، غریبوں اور فقیروں کی خبرگیری کی جائے، مسکینوں، یتیموں پر رحم کیا جائے۔
الغرض انسان انسانیت کے اعلیٰ تر ین اخلاق واوصاف سے آراستہ ہوجائے۔ انہی مقاصد کے پیشِ نظر حق تعالیٰ نے ماہِ رمضان المبارک کے روزے فرض کردیئے اور راتوں کو قیام کی سنت جاری فرمادی، تاکہ بندۂ مومن اس کی راتوں میں قرآن پڑھے یا سنے، کبھی بارگاہِ عظمت وجلال کے سامنے سربسجود ہوکر، کبھی جھک کر تعظیم وتقدیس بجا لائے، کبھی کھڑے ہوکر قرآن کریم کے رقت انگیز نغموں سے دل کو گرمائے، اور ’’یَذْکُرُوْنَ اللہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ‘‘ – وہ یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے بھی، بیٹھے بھی اور لیٹے بھی- کا پیکر بن جائے اور دنوں میں اسی قرآن پر عمل کی تو فیق نصیب ہو۔ آنکھیں نیچی اور زبان کلمۂ خیر کے علاوہ بند رکھے، لڑائی جھگڑے سے پر ہیز کرے، نفسانی خواہشات کے کسی تقاضے کو پورا نہ کرے، صد قہ وخیرات کرے، ہر کارِ خیر کی طرف لپکے اور اس کی بجا آوری میں دریغ نہ کرے، ہر برائی سے بچے۔ الغرض سیرت وصورت اور عمل وکردار کے لحاظ سے سر اپا فر شتہ بن جائے۔ ظاہر و باطن کی ایسی اصلاح ہوجائے کہ اس کے سر تاپا سے ظا ہر ہو کہ یہ ایک با خدا قوم کا فر دہے۔ اب آپ کے خیال میں ماہِ رمضان اور نزولِ قرآن کا باہمی تعلق واضح طور پر آگیا ہوگا۔ یہ ہے حقیقی یادگار نزولِ قرآن کریم کی !!!