‘Allamah Muhammad Yusuf Al Binnory (rahimahullah) writes:
“May Allah Ta’ala shower abundant mercy on the soul of Moulana Ilyas (rahimahullah) who reminded the Muslim ummah of their forgotten lesson of tabligh. His entire life, all his worry and every breath was devoted to this end. Allah Ta’ala accepted his devotion, sacrifices and sincerity.
The blessing of this has spread to the four corners of the world. It is very possible that there remains no land where a jamat has not reached. These jamats reached places from Moscow, Finland and Spain to China and Japan. Their da’wat and method is very similar to that of the Ambiya (‘alayhimus salam). They do not wait for people to come to them and learn din. Rather, they go to every gully, avenue, bazaar and to every home inviting the people verbally, and via their good character and excellent manner of working.
From head to toe they present a practical manifestation of Islam. Therefore, the effects are certain. Nowadays we do not need much lectures or books as there’s plenty available already. We are in need of practical examples. Eloquent (books and material) are readily available. All we need is plain, simple, practical dawat.
Alhamdulillah this is what the tabligh jamat does.”
(Basa-ir wa ‘ibar, vol. 1, pg. 406)
26/03/2018
__________
بصائر وعبر (۱/ ۴۰۶): تبلیغی جماعت اور اس كے شاندار اثرات
حق تعالى كی ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں حضرت مولانا محمد الیاس كاندھلوی رحمہ اللہ كی روح پر جنہوں نے مسلمانوں كو بھولا سبق یاد دلایا اور اس سبق یاد دلانے میں ہی فنا ہو گئے۔ اگر كوئی فنا فی اللہ، فنا فی الرسول اور فنا فی الشیخ كے مظاہر كو سمجھنا چاہتا ہو تو حضرت مرحوم كو دیكھ لے كہ كس طرح فنا فی التبلیغ ہو گئے تھے، اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے بس یہی فكر ہی دامن گیر تھی، تمام زندگی اور تمام افكار وانفاس بس اسی مقصد كے لیے وقف تھے، حق تعالى نے ان كی جانفشانی وقربانی ایثار واخلاص اور جدوجہد كو قبول فرمایا اور چہار دانگ عالم میں اس كے ثمرات وبركات پھیل گئے، شاید روئے زمین كا كوئی خطہ ایسا باقی نہ ہوگا جہاں ان كی جماعت كے قدم نہ پہنچے ہوں۔
ماسكو، فن لینڈ واسپین سے لے كر چین وجاپان تك ان قافلوں كی دعوت وانبیاء كرام علیہم السلام كے طریق دعوت سے بہت مشابہت ركھتی ہے۔ اس كا انتظار نہیں كہ لوگ خود آئیں گے اور دین سیكھیں گے، بلكہ گلی كوچوں اور بازاروں میں چل پھر كر اور گھر گھر لوگو ں كے پاس پہنچ كر دعوت دی جاتی ہے، اور زبان سے حسن اخلاق كا عملی نمونہ پیش كیا جاتا ہے، اس لیے اس كا اثر یقینی ہوتا ہے۔
آج امت تقریر وتحریر كی محتاج نہیں۔ یہ بہت كچھ ہو چكا ہے، ضرورت عملی نمونہ پیش كرنے كی ہے، فصاحت وبلاغت كا دریا امت بہا چكی ہے، لیكن آج صرف سادہ عملی دعوت كی ضرورت ہے۔ الحمد للہ كہ آج تبلیغی جماعت اس پر عمل پیرا ہے۔