Muhaddithul ‘Asr; ‘Allamah Muhammad Yusuf Al-Binnory (rahinahullah) writes:
“In the terminology of Islam, atheism and hypocrisy have the same meaning. The contradiction of speech and action is called hypocrisy and it has three stages:
- The belief of the heart is correct but actions claim to be contrary. This is hypocrisy in actions.
- There is no belief at all in the words of Allah Ta’ala and Rasulullah (sallallahu ‘alayhi wasallam) but verbal claims of Iman and Islam are made for show. This is called hypocrisy in belief which is pure kufr and for it is warnings of the deepest part of Jahannam.
- A person has kufr in his heart but outwardly does not reject Islam. Rather he apparently confesses to Islam and after interpreting and distorting the words of Quran and Hadith, applies it to his false beliefs. This is called atheism and heresy which stems from hypocrisy in interpretation and this is the most severe form of hypocrisy.
In these three stages of hypocrisy, the difference is that in the first stage (hypocrisy in actions), the Iman and belief remains and many branches of actions are present but there is hypocrisy in a specific branch of action. In the second stage (hypocrisy in belief), there is no Iman (‘Aqa’id) and no Islam (actions). There is only a claim which is purely for show i.e., despite having pure disbelief, one claims to be a Muslim. And the third stage is worse than this – together with hypocrisy in belief, it is coupled with distortion of the Quran and Hadith.
Today, the apparent common sin is that there is a claim of Islam by the tongue, but the actions are such that even a kafir feels ashamed. Hypocrisy in actions is something almost everyone is afflicted with, where Iman is claimed by the tongue but the actions are contrary. However, many people are actually suffering from worse; hypocrisy in belief i.e., they are only called Muslims because they have a link with Muslims, otherwise there is no Islam in their hearts, nor respect for the din of Rasulullah (sallallahu ‘alayhi wasallam), nor belief in the sayings of Rasulullah (sallallahu ‘alayhi wasallam).
In the present age, heresy has developed into fashion. The gist of it is that Muslims are currently caught up in hypocrisy in actions and hypocrisy in belief. Today the disgrace and misfortune that we are experiencing is, in reality, the punishment of this hypocritical conduct.
(Extracted from Basayr wa ‘ibar vol. 1, pg. 190)
2019/07/26
__________
التخريج من المصادر
بصائر وعبر (۱/ ۱۹۰): نفاق کی تین صورتیں:
اسلام کی اصطلاح میں الحاد اور زندیقیت کا بھی یہی مفہوم ہے، چنانچہ فقہاء کرام نے زندیق اسی کو بتایا ہے جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرے اور دل میں کفر چھپائے، گو یا قول وعمل کے تضاد کا نا م نفاق ہے اور اس کی تین صورتیں ہیں:
اول: یہ کہ قلبی اعتماد تو صحیح ہو مگر عمل دعویٰ کے خلاف ہو، یہ نفاق فی العمل ہے۔
دوم: یہ کہ دل سے خد ااورر سول صلى اللہ علیہ وسلم کی بات پر سرے سے اعتقادہی نہ ہو، بلکہ صرف ظاہرداری کے لیے ایمان واسلام کے زبانی دعوے کیے جائیں، یہ نفاق اعتقادی کہلاتا ہے جو کفر خالص ہے اور اس کے لیے دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ کی وعید ہے۔
سوم: یہ کہ ایک شخص دل میں عقیدۂ کفر رکھتا ہے، مگر ظاہری طور پر اسلام کا انکار نہ کرے، بلکہ بظاہر اسلام کا اقرار کرے اور قرآن وحدیث کی نصوص میں تاویل و تحریف کر کے انہیں اپنے عقائد باطلہ پر چسپاں کرے، یہ زندقہ اور الحاد کہلاتا ہے جو نفاق فی التعبیر سے پیدا ہو اورنفاق کا یہ درجہ سب سے اشد ہے، چنانچہ منافق کی تو بہ بالاتفاق مقبول ہے، لیکن زندیق کی تو بہ بعض علماء کے نزدیک لائق التفات نہیں۔
ان تین مراتبِ نفاق میں فرق یہ ہے کہ نفاقِ عملی کی صورت میں ایمان واعتقادباقی ہے اور عمل کے بہت شعبے بھی موجود ہیں، مگر کسی خاص شعبۂ عمل میں نفاق ہے اور نفاقِ اعتقادی میں نہ ایمان ہے نہ اسلام، نہ عقیدہ ہے، نہ عمل صرف ظا ہر داری کے لیے دعویٰ ہی دعویٰ ہے، یعنی خالص کفر کے باوجود اسلام کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور تیسرا مر تبہ اس سے بھی بد تر ہے کہ اس میں نفاق اعتقادی کے ساتھ نصوص میں تحریف کا اضافہ ہوجاتا ہے، گو یا خالص کفر کو تاویلات کے ذریعے اسلام ثابت کیا جاتا ہے۔
الغرض قول وعمل کا تضاد ہو یا نفاق ہو حق تعالیٰ کے نزدیک بد ترین جرم ہے، شد ید غضبِ الٰہی کا سبب ہے ۔ آج مسلمانوں کا بظا ہر عام جرم یہی ہے کہ زبان سے اسلام کا دعویٰ ہے، لیکن عمل وہ ہیں جن سے کا فر بھی شرمائے اور افراد واشخاص ہوں یا حکومتیں، راعی ہوں یا رعایا سب آج اس عظیم معصیت میں مبتلا ہیں، نفاق عملی میں تو قریباً سبھی مبتلا ہیں کہ زبان سے دعوے کچھ کیے جاتے ہیں اور عمل کچھ اور ہوتا ہے۔
لیکن بہت سے لوگ تو واقعۃً نفاقِ اعتقادی کے مریض ہیں، یعنی وہ مسلمان صرف اس لیے کہلاتے ہیں کہ ان کو مسلمانوں سے واسطہ ہے، ورنہ ان کے دل میں اسلام نہیں، نہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے دین کی عظمت ہے، نہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے فر مودات کا اعتقاد ہے ،اور بہت سے لوگ اسلام کی پیمائش نفس وشکم کے پیما نے سے کرتے ہیں، گویا انسان کو دینِ اسلام کی اطاعت وفر ما نبرداری کے لیے پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ خود اسلام کو انسانی خواہشات کے پیچھے چلنے کے لیے نازل کیا گیا ہے، وہ مسلمانوں پر یہ فرض عائد نہیں کرتے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے ڈھا نچے میں ڈھالیں، بلکہ وہ اسلام پر یہ فرض عائد کرتے ہیں کہ وہ انسانی خواہشات کے سانچے میں ڈھلتا رہے، یہ موجودہ دور میں زند قہ کی ترقی یا فتہ شکل ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آج عمومی طورپر مسلمان نفاقِ عملی یا اعتقادی میں مبتلا ہے، آج ہمیں جوذلت ونکبت نصیب ہورہی ہے، درحقیقت اس منا فقا نہ طرزِ زندگی کی سزا ہے ۔